(نقطۂ نظر) صہیونیوں کا ٹرمپ کارڈ - ابو موسیٰ

8 /

 

صہیونیوں کا ٹرمپ کارڈ


ایوب بیگ مرزا

 

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے واشنگٹن دورے کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرس میں اچانک یہ کہہ دینا کہ جنگ کے مکمل خاتمے کے بعد امریکہ غزہ کو اپنے کنٹرول میں لے لے گا اور یہ 40 کلومیٹر کی پٹی جو حالیہ جنگ و جدل کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگئی ہے اُسے جدید طرز پر تعمیر و ترقی سے انتہائی خوبصورت بنا دے گا۔ ٹرمپ کا یہ اچانک اعلان بعض مبصرین کے نزدیک ٹرمپ کی طبیعت کا لااُبالی پن تھا اور یہ ایک چھلاوے ذہن کی ایک بچگانہ اختراع تھی۔ یہ کسی بڑی سطح پر اجتماعی مشاورتی سوچ کا نتیجہ نہیں تھی اور نہ ہی یہ اعلان سنجیدگی کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ راقم کی رائے میں اِن مبصرین کا یہ خیال ہرگز درست نہیں ہے۔ راقم اِس بات سے بھی شدید اختلاف رکھتا ہے کہ ٹرمپ پہلا شخص ہے جس نے یہ آئیڈیا فلوٹ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1897ء میں صہیونیوں کے بڑوں نے جو پروٹوکولز طے کیے تھے اور مستقبل میں اپنے لیے جو اہداف معین کیے تھے یہ اعلان اُن کی طرف بڑھنے کے لیے ایک انتہائی اہم قدم تھا جو اُٹھایا گیا ہے۔ البتہ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ پہلا امریکی صدر ہے جس نے میڈیا پر اِس کا اظہار کیا اور عام و خواص کو اِس سے مطلع کر دیا۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ اِس سوچ کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا اور اِس کی عملی شکل کیا ممکن ہوگی۔ باریک بینی سے غور کرنے والوں کے مطابق چار طریقوں سے اِس پر عملدرآمد ہو سکتا تھا: پہلا طریقہ یہ تھا کہ عالمی سطح پر اِس تجویز کی پزیرائی ہوتی اور دنیا ٹرمپ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑی نظر آتی یہ نہ ہوا نہ ممکن تھا۔ اگرچہ راقم کی رائے میں عیسائی دنیا کا اس تجویز کو رد کر دینا اگر تہہ دل سے ہوتا اور وہ ایک حقیقی رکاوٹ بنتے نظر آتے تو بات دوسری تھی لیکن عیسائی دنیا جو صہیونیوں کی دہشت گرد کارروائیوں اور تخریب کاری کی کسی نہ کسی انداز میں سہولت کار رہی ہے، وہ اِس حوالے سے عالم اسلام اور عرب دنیا کو زہر کا یہ گھونٹ فوری طور پر اور زبردستی اُن کے گلے میں انڈیلنے کو فی الحال خلاف مصلحت سمجھتی ہے، لہٰذا مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن آنے والے وقت میں اپنا رنگ بدل سکتی ہے۔
اِس تجویز کو عملی شکل دینے کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ فلسطینی اِس پر آمادہ نظر آئیں، لیکن یہ کسی طرح ممکن نہیں، فلسطینیوں کا اِس تجویز پر یہ ردعمل آیا ہے کہ ہم غزہ کو چھوڑنے کی بجائے اِس کے ملبہ میں دفن ہونے کو ترجیح دیں گے۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے ہاتھوں غزہ کی اتنی تباہی اور بربادی کے باوجود اور اپنے ہزاروں پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے کے باوجود غزہ کے کسی ایک شہری نے بھی حماس کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی دشمن کو حماس کے جنگجوؤں کا کوئی اتہ پتہ بتایا۔ یہ بہادری اور شجاعت کی ناقابل یقین داستان ہے۔
تیسرا طریقہ یہ تھا کہ امریکہ ہرچہ بادا باد کہہ کر جنگ میں کود جائے اور غزہ میں امریکی boot on the ground دنیا کو دیکھنے میں آئیں۔ مگر یہ اِس لیے ممکن نہیں کہ ویت نام، شمالی کوریا اور افغانستان نے امریکہ کو ماضی میں اِس حماقت پر ایسے ناکوں چنے چبوائے تھے کہ امریکہ اِس حوالے سے اب کانوں کوہاتھ لگاتا ہے۔
عقلی طور پر آخری طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ اسرائیل کوئی جھوٹا الزام تراش کر سیز فائر ختم کر دے اور پھر بمباری سے ایسی درندگی اور وحشی پن کا مظاہرہ کر ے کہ اُس کی چند ماہ پہلے والی درندگی بھی ماند پڑ جائے پھر اہل غزہ پر خوراک اور ضروریاتِ زندگی اور دوائیاں مکمل طور پر بند کر دے کہ اہل غزہ یا تو اپنی اِس مٹی میں دفن ہو جائیں یا اپنے اِس عزم کو برقرار نہ رکھ سکیں کہ وہ کسی صورت غزہ کی زمین سے نہیں نکلیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل سمجھتے ہیں کہ صرف یہ آخری راستہ ہے جس سے وہ غزہ پر غاضبانہ قبضہ کر سکیں گے۔
فلسطینیوں کو غزہ بدر کرنے کی عرب ممالک نے شدت سے مخالفت کی ہے اِن میں اہم ترین سعودی عرب، اردن اور مصر ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے راقم اِس دعویٰ کی تردید تو نہیں کرتا کہ سعودی حکمران اہل غزہ اور فلسطینیوں کی محبت میں ٹرمپ فارمولا کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن سعودی عرب کی ٹرمپ کی تجویز کی مخالفت کرنے کی دو اہم تر وجوہات ہیں۔ ایک تو اُنہیں یہ آگ اب اپنی سلطنت کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پر اُس پس منظر میں جو گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کی نقاب کشائی کی تھی۔ اگرچہ گریٹر اسرائیل کا تصور پہلے ہی ساری دنیا پر واضح تھا لیکن سعودی حکمران اِس غلط فہمی کا شکار تھے کہ امریکہ کو سعودی عرب کی اتنی شدت سے ضرورت ہے کہ وہ گریٹر اسرائیل کا معاملہ اُن کی وجہ سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اب جبکہ مذکورہ تجویز خود امریکہ کی طرف سے سامنے آئی ہے تو سعودیوں کو دھچکا لگا ہے اور وہ گھبراہٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے اِس تجویز کی کھل کر مخالفت کی ہے۔
سعودی عرب کی ٹرمپ فارمولا کی مخالفت کرنے کی ایک وجہ اقتصادی اور مالی بنیادوں پر بھی ہے۔ سعودی عرب جو نیوم نامی ایک نیا شہر بسا رہا ہے اور اُسے سیاحتی حوالے سے اتنا پرکشش بنا رہا ہے کہ یورپ اور اُس کی رنگینیاں بھی اُس کے سامنے مات پڑ جائیں اور سعودی عرب کی اکانومی کا انحصار صرف تیل پر نہ رہے بلکہ تیل کی مارکیٹ دنیا میں ہونے والی نئی نئی ایجادات اور ماڈرن ٹیکنالوجی کی وجہ سے اگر لڑکھڑا بھی جائے تو سعودی عرب کی مالیاتی صورتِ حال کو مستحکم رکھا جاسکے۔ گویا نئے شہر کی سیاحتی سرگرمیاں اوررنگینیاں سعودی عرب کی معیشت کو زوال سے بچا سکیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ غزہ کی جغرافیائی لوکیشن بہت بہتر اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ غزہ تو ایک واٹر فرنٹ پراپرٹی ہے جبکہ سعودی عرب کا یہ شہر نیوم ایک ویرانے کو آباد کرنے کی کوشش ہے یہ شہر سعودی عرب، مصر اور اردن کے مشترکہ سرحدی علاقے پر واقع ہے لہٰذا اگر غزہ کو امریکہ اور اسرائیل مل کر سیاحوں کے لیے پُرکشش علاقہ بناتے ہیں تو سعودی عرب کا نیوم شہر پر لگی ہوئی بہت بڑی سرمایہ کاری کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے اور سعودی عرب نے جو تیل کا متبادل اپنی معیشت کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ اُس کا ایک بڑا معاشی سہارا نہیں بن سکے گا۔
امریکہ اور اسرائیل اہلِ غزہ کو مصر اور اُردن دھکیلنا چاہتے ہیں لیکن مصر اور اردن تو غزہ بدر فلسطینیوں کو کسی صورت اپنی سرزمین میں نہیں آنے دیں گے۔ اُردن فلسطینیوں کے جارہانہ رویہ کی وجہ سے پہلے ہی ڈرا ہوا ہے اُسے تو فلسطینیوں کی مدتوں پہلے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے اپنی سلامتی کے حوالے سے بڑی پریشانی لاحق ہوگئی تھی۔ اُس زمانہ میں برگیڈیئر ضیاء الحق جو بعد میں پاکستان کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بنے، اُنہوں نے شاہ اُردن کے مطالبے پر فلسطینیوں سے دشمنوں کی طرح نمٹا تھا اور اُنہیں اتنی شدید زک پہنچائی تھی کہ فلسطینی چیخ اُٹھے تھے۔ غیرمستند اطلاعات کے مطابق اسی ہزار کے قریب فلسطینی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ جہاں تک مصر کا تعلق ہے، وہاں تو ایک عرصہ سے کٹر قسم کے سیکولر ذہنیت کے حامل حکمران ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ صدر جمال عبدالناصر اور اُن کے بعد آنے والوں نے اخوان المسلمین کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ لہٰذا مصر ایسے لوگوں کو کیوں لینے کے لیے تیار ہوگا جو حماس کے جنگجوؤں سے متاثر ہی نہیں، اُسے دل و جان سے سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ لوگ یقیناً مصر کے لیے بھی مسئلہ بنیں گے۔ بحرحال مصر اور اردن کے لیے یہ ایسا مسئلہ بنے گا کہ وہ نہ اُگل سکیں گے نہ نگل سکیں گے۔ اِس لیے کہ ایک طرف امریکہ کا ڈنڈا ہوگا جسے برداشت کرنا آسان نہیں اور دوسری طرف فلسطینیوں کا جذبہ حریت اُن سے سنبھالا نہ جائے گا۔
موجودہ تحریر کے آغاز میں یہ بات آ چکی ہے کہ گریٹر اسرائیل ایک پرانی خواہش ہے جس کی طرف قدم بہ قدم بڑھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اگر غزہ کے امریکی کنٹرول کی بات کی ہے تو اُس سے پہلے امریکی صدر بائیڈن نے غزہ کو اِس حال تک پہنچانے کے لیے اسرائیل کو 7ارب ڈالرکا اسلحہ تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ راقم کی رائے میں اگر 2024ءکے انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک صدر منتخب ہوجاتا تو ٹرمپ کی بجائے ڈیموکریٹک امریکی صدر بھی یہی فریضہ سرانجام دے رہا ہوتا۔ وہ اَن دیکھے ہاتھ جو اسرائیل کو وجود میں لائے تھے وہی مشرقِ وسطیٰ میں اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ چاہے امریکی صدر ایک جماعت سے آئے یا دوسری جماعت سے۔ یہ عرب ہی ہیں جو آج تک اِس حقیقت کو سمجھ نہ سکیں کہ صہیونیوں کا اصل ایجنڈا کیا ہے، جو وہ امریکہ اور یورپ کے ذریعے آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اب کچھ عرب ممالک کو ہوش آیا ہے تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔ عرب حکمران آج تک اسرائیل کے عزائم کو ناکام بنانے کی جدوجہد کرنے کی بجائے اپنی حکومتیں بچاتے رہے اور اِس خاطر امریکہ ہی نہیں اسرائیل کی مدد بھی حاصل کرتے رہے۔ نیتن یاہو کا یہ بیان بھی بڑا معنی خیز ہے کہ فلسطینی ریاست سعودی عرب میں قائم کر دی جائے۔
صہیونیوں کا ذکر آیا ہے تو قارئین پر یہ بھی واضح کر دینا مفید رہے گا کہ یہودی خاص طور پر مذہبی یہودی اور صہیونی میں کہاں فرق پڑتا ہے۔ صہیونی فوری طور پر گریٹر اسرائیل کا قیام، یروشلم پر قبضہ اور بیت المقدس میں تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر چاہتے ہیں اگرچہ مذہبی یہودی بھی یہ سب کچھ چاہتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مسیحا آئے گا تو وہ یہ سب کام کرے گا۔ صہیونیوں اور مذہبی یہودیوں کے درمیان میں سیکولر یہودی صہیونیوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کے قیام کے حوالے سے مثبت رائے رکھتے ہیں۔ سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ صہیونیت اُن کی ایک قومی تحریک ہے جو یہودیوں کو دوبارہ اُن کے ہزاروں سال پرانے وطن اسرائیل جو (کنعان، ارضِ مقدس اور فلسطین) پر مشتمل ہے، دلانا چاہتے ہیں۔ آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور دشمن سے مشرق وسطیٰ کی تمام ریاستوں کو شدید خطرہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان اور اسرائیل کا کوئی براہِ راست جھگڑا یا تصادم نہیں ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں جانتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان کسی وقت بھی اپنے عرب بھائیوں کی مدد کو آسکتا ہے۔اِس خطرے کا اظہار وہ آج نہیں نصف صدی سے کر رہے ہیں۔ لہٰذا دشمن کے نزدیک یہ لازم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں دوبارہ بڑی جنگ چھیڑنے پر اصل کامیابی یہ ہوگی کہ پاکستان کے بھی ایٹمی دانت توڑ دیئے جائیں وگرنہ عربوں پر مکمل فتح کا ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ گویا عربوں کے ہاتھ سے تو گیم نکل چکی ہے۔ اب میدان میں پاکستان سے ہی ٹاکرہ ہوگا۔ پاکستان یقیناًایک ایٹمی قوت ہے۔ اُس کی میزائل ٹیکنالوجی بھی اعلیٰ سطح کی ہے۔ اُس کے پاس تربیت یافتہ پروفیشنل آرمی ہے لیکن پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات اِس قدر خراب اور ناگفتہ بہ ہیں کہ خوف ہے کہ کہیں تمام تر عسکری قوت دھری کی دھری نہ رہ جائے۔ پھر یہ کہ ریاستی ادارے سیاست میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ جو اسلام آباد کے ایک سینئر جج نے کہا ہے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اورانتظامیہ سمیت ریاست کے تمام ستون گِر چکے ہیں۔ یہ تباہی ایک ایسی حقیقت بن کر سامنے آگئی ہے کہ اِس کا انکار خود فریبی ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سوویت یونین جو عالمی طاقت تھی اُس کی صرف معاشی حالت خراب ہوئی تو وہ شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ اِس وقت پاکستانیوں کا حال یہ ہے کہ وہ خالی پیٹ اور ننگ دھڑنگ ہیں لیکن باہمی سر پھٹول اِس سطح پر جاری ہے کہ تاریخ سے بھی شاید اِس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ جج عدالتوں میں لڑ رہے ہیں۔ سیاست دان سیاسی اختلافات کو بدترین ذاتی دشمنی کی طرف لے گئے ہیں۔ IMF نے اپنی تاریخ میں شاید ایسے شرمناک مطالبات کسی اور ملک سے نہ کیے ہوں جو وہ پاکستانیوں سے کر رہا ہے کیونکہ ہم اپنے منہ سے کہہ رہیں کہ ہم بھکاری ہیں، خدارا ہماری جھولی میں کچھ ڈال دو۔ ایسے میں خود ہماری سلامتی خطرے سے دوچار ہے ہم عرب بھائیوں کی کیا مدد کریں گے۔ اصل میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ امریکی صدر صہیونیوں کا ٹرمپ کارڈ ہے جو عالم اسلام خصوصاً عربوں کے خلاف استعمال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔