ہفت روزہ ندائے ملت کا امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ سےخصوصی انٹرویو
ہماری کوشش ہے کہ ملک و ملت کے مشترکہ معاملات پر
تمام علماء ایک پیج پر رہیں۔
تنظیم اسلامی کی صورت میں ڈاکٹر اسرار احمدؒکے لگائے ہوئے
پودے سے الحمدللہ آج پورا معاشرہ مستفید ہورہا ہے۔
دروس قرآن کا سلسلہ اب بڑے شہروں کے علاوہ ملک
بھر میں پھیل چکا ہے۔
تنظیم اسلامی نظری سیاست میں تو موجود ہے
مگر انتخابی سیاست کا حصہ نہیں بنتی۔
جب تک ہم اللہ سے کئے وعدے کی تکمیل کی طرف نہیں
جائیں گے، پاکستان کے معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔
مرتب: خالد نجیب خان ،معاون مرکزی شعبہ نشرو اشاعت
س:ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ؒکے بعد تنظیم اسلامی پاکستان کی اب تک کی کارکردگی کیا ہے؟
شجاع الدین شیخ : ڈاکٹر اسرار احمدؒ نےتنظیم اسلامی کی بنیاد 1975ءمیں رکھی تھی۔اُن کی دن رات کی محنت سے جو پودا لگا تھا،الحمدللہ آج اُس کے برگ وبار ہم معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ 2002ءمیں ہی تنظیم اسلامی کی امارت ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بعد از مشاورت حافظ عاکف سعید کو سونپ دی تھی جو تقریباً18برس تک اُن کے پاس رہی۔اِس دوران 2010ءمیں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال ہوگیا۔اگست 2020ءمیںحافظ عاکف سعید نے طبیعت ناساز ہونے اور دیگر عوارض کی وجہ سے تنظیم کی امارت کی ذمہ داری مزیداُٹھانے سے معذرت کرلی تو اُنہوں نے مشاورت کے بعد یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی ۔اگر موازنے کی بات کریں گے تویہ مثال کافی ہے کہ اگر ایک پلڑے میں ڈاکٹراسرار احمدؒ کو رکھ دیا جائے اور دوسرے میں اُن کی جماعت کو تو یقیناًاُن کا وزن بھاری ہوگا۔بہرحال ایک احساسِ فرض ہے جس کے ساتھ ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے فیض کی برکات ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔حافظ عاکف سعید نے اِس اجتماعیت کومزید منظم انداز سے چلانے کی کوشش کی ،اُن کا بھی بہت بڑا احسان ہے۔ جب میں بڑوں کو دیکھتا ہوں تو اپنے اندر بہت کمی پاتا ہوں،تاہم اُن کے اخلاص اورقربانیوں کو سامنے رکھ کر قوت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ نظام صرف چل ہی نہیںرہا بلکہ آگے بھی بڑھ رہا ہے۔دین اپنا غلبہ چاہتا ہے ۔جس کے لیے جدوجہد نبی مکرم ﷺکا مشن تھا،آج وہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔ قائد اعظم کہتے ہیں کہ میرا یہ ایمان اور یقین ہے کہ یہ پاکستان رسول اللہﷺ کا روحانی فیضان ہے، لہٰذا اب ہمارایہ فرض ہے کہ خلافت راشدہ کو سامنے رکھ کر اُس سے رہنمائی لیں اور عہد حاضر کی حقیقی اسلامی فلاحی ریاست دنیا کے سامنے اپنا کردار ادا کرے۔ ہمارا تو سلوگن بھی یہی ہے’’ تنظیمِ اسلامی کا پیغام، خلافتِ راشدہ کا نظام۔‘‘
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے درو سِ قرآن کا ایک خاص پہلوجس میں علمیت، حکمت اور دین کا ایک جامع تصور ہے، ہمارے سامنے ایک پیکج رکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے انفرادی و اجتماعی معاملات کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ڈاکٹر اسرارؒ صاحب نے1998ءمیں آخری مرتبہ دورئہ ترجمہ قرآن کروایا تھا۔2000ءمیںپورے پاکستان میں دورئہ ترجمہ قرآن بمشکل5 سے 10 مقامات پر ہوتا تھالیکن حافظ عاکف سعید کے دورِ امارت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے بتدریج 10 سے 20 اور پھر 50 مقامات پر ہونے لگا ۔ اب کم و بیش یہ 100 سے زائدمقامات پرہو رہا ہے،کہیں تفصیلی پروگرام ہوتا ہے”مکمل قرآن پاک کا ترجمہ“ اور کہیں مختصر ، جس کو ہم ”خلاصہ مضامین قرآن “ کہتے ہیں۔
دروسِ قرآن کا سلسلہ پہلے تو خطاب جمعہ میں شروع ہوا،پھر اِس کے علاوہ بھی ہونے لگے۔پہلے ڈاکٹر اسرار احمدؒہی دروسِ قرآن کے لیے جاتے تھے ،پھراُن کے2سے3 برگزیدہ شاگردوں نے پورے پاکستان میں جانا شروع کیا۔ اب بڑے شہروں سے آگے بڑھ کر کئی چھوٹے شہروں ،قصبوں، دیہات،چھوٹے چک میں بھی دروسِ قرآن کے حلقے ہفتہ یا 15 دن کے بعد منعقد ہورہے ہیں، یہ تعداد اب پاکستان بھر میں 800 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ چندبرس میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 2025ء میںان شاءاللہ امید ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ سو مقامات پر نماز تراویح میں دورۂ ترجمہ قرآن و خلاصۂ مضامین قرآن کا اہتمام ہوگا۔ الحمد للہ!
س:پاکستان میں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی لازمی تعلیم کے حوالے سے جو اقدامات کئے گئے ہیں کیا آپ اِس سے مطمئن ہیں ؟
شجاع الدین شیخ: وفاقی وزارتِ تعلیم نے چند سال پہلے علماءکی کمیٹی بنائی تھی کہ سلیبس، کتب اورایسی گائیڈز تیارکی جائیںجن میں اختلافی باتیں نہ ہوں ۔بچہ سکول میں ہی پورے قرآن مجیدکا وہ ترجمہ پڑھ لے جو متفق علیہ ہو۔لہٰذا دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی کے5وفاقوں کے مشترکہ پلیٹ فارم’’ اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ نے اِس پرنظرثانی کر کے اتفاق کرلیا،میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس پر کام کرنے والی کمیٹی کا حصہ رہا۔اب صورتحال یہ ہے کہ اِس منصوبے کو کالج کی سطح تک پھیلا دیا گیاہے،گویا سکولزاورکالجز میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے مگر مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ابھی وقت درکار ہے۔ وفاق،پنجاب اور کے پی کے حکومت نے قرآن مجید کی تعلیم کولازم قرار دے دیا ہے اور وہ بھی سکول اورکالج کی سطح پریعنی نویں سےبارہویں تک4 سال میں 50 نمبر کا ترجمہ قرآن کالازمی امتحان ہوگا۔اِس سکیم میں ہے کہ یہ سلسلہ چھٹی جماعت سے شروع کیا جائے تو اگلے7برس میں مکمل قرآن مجید کا ترجمہ مختصر وضاحت کے ساتھ ہوپائے گا۔اب نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت میں 50 نمبر کا لازمی پیپر بھی آنا شروع ہو گیاہے اور اِس وقت تقریباً سوا کروڑ بچوں کے ہاتھ میں قرآن پاک کے ترجمہ کا سلیبس آچکا ہے۔ الحمدللہ کراچی میں دی علم فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ ہے،2008ءسے میں اِس کے ساتھ بھی منسلک ہوں ۔ یونیورسٹیز کے حوالے سے ایچ ای سی کی طرف سے ایک گائیڈ لائن آئی ہے، جس میں کہا گیا کہ آپ گریجویشن میں قرآن پاک کا ترجمہ پڑھائیں۔وہ محض گائیڈ لائن ہی ہے،اِسی لیے پرائیویٹ یونیورسٹیز میں وہ سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی جبکہ پنجاب میں اُس وقت کے گورنر غلام سرور صاحب نے تو یہاں تک کہا تھا کہ گریجوایشن کی ڈگری اُس وقت تک ایوارڈ نہیں ہو گی جب تک کہ کوئی طالب علم قرآن پاک کے ترجمے سے نہ گزرے تو پنجاب کی بعض یونیورسٹیز نے اِس میں بڑی سنجیدگی دکھائی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور بہاؤ الدین زکریایونیورسٹی ملتان کے علاو ہ فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین راولپنڈی نے اِس سلسلے میں بڑا اچھا کام کیا۔
پرائیویٹ یونیورسٹیز کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہاں اساتذہ دستیاب نہیں ہیں تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا دین اور قرآن مجیدکی تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل ہے؟ جب ترجیحات میں میوزک شامل ہوتا ہے تو سندھ حکومت میوزک کے لیے بھی اساتذہ تعینات کر لیتی ہے۔دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہاں قرآن کی تعلیم کے اساتذہ دستیاب نہیں تھے توبعض سائنس پڑھانے والے ٹیچرز نے پرنسپل کو رضاکارانہ طور پرآفر کی کہ ہم بچوں کو قران پاک کا ترجمہ پڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنہیں اچھے گھرانے ملے،اچھے اساتذہ ملے، اُن کی ماسٹرزڈگری تو اسلامک سٹڈیز یا درس نظامی کی نہیں تھی لیکن محلہ، مسجد، استاد، عالمِ دین اور گھر کا ماحول اچھا ملا تو یہ بھی اُس کی ایک مثال ہے،ایسے اساتذہ کی تھوڑی سی تربیت کی جائے تو اُن سے بھی بڑے اچھے نتائج لیے جاسکتے ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک و ملت کے مشترکہ معاملات پر تمام علماءایک پیج پر رہیں، جس طرح ماضی قریب میں مبارک ثانی (قادیانی)کا معاملہ تھا یا سود کے خاتمے کی بات ہو تو ہم خود بھی کوشش کرتے ہیں اور علماءکرام کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اس میں ہم جتنااپنا وزن ڈالنے کی کوشش کریں گے یہ اتنا بڑا کام ہوگا۔
س:تنظیم اسلامی کا دین کے کاموں کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے انتخابی سیاست میں جانے کا کوئی پروگرام ہے؟۔
شجاع الدین شیخ: سیاست میں تو ہم لوگ ہر وقت موجودہوتے ہیں۔ جس طرح اینکرزاورمیڈیا پرسنز سیاسی گفتگو تو کرتے ہیں لیکن الیکشن نہیں لڑتے اور نہ ہی اُنہیں کوئی سیاستدان کہتا یا سمجھتا ہے، اِسی طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے سیاسی تجزئیے، دنیا تسلیم کرتی ہے۔الحمدللہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی کہا کہ پہلے تو میں ڈاکٹر صاحب کے دروسِ قرآن سے ہی متاثر تھا پھر معلوم ہوا کہ وہ تو کمال کے تجزیہ نگاربھی تھے ۔ہمیں بھی ورثے میں وہ شے ملی ہے۔عملی سیاست،جس کو مروجہ طور پر ہمارے ہاں ’’انتخابی‘‘ کہا جاتا ہے، ہم اُس کا حصہ نہیں بنتے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک انتخابی سیاست کا راستہ ایک چلتے ہوئے نظام کو چلانے کے لیے ہے، بدلنے کےلیے نہیں۔ ماضی کو دیکھیں تو دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں وہ اکثر و بیشتر انقلابی جدوجہد کے راستے سے ہی آئیں۔ آج اگر آپ کسی بچے سے پوچھیں کہ پاکستان کا اصل حکمران کون ہے تو جو جواب وہ دیتا ہے ،سب کو ہی معلوم ہوتاہے۔اس حوالے سے فارم 45 اور47 کا چکر بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ ہمارے پیشِ نظر انقلابی جدوجہد کاراستہ ہے۔اس حوالے سے ”رسولِؐ انقلاب کا طریقہ انقلاب“ استادِ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا بڑا جامع خطاب ہے۔گویا نظری سیاست اور انقلابی جدوجہد کا تو ہم حصہ ہیں لیکن انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔
س: آپ کے خیال میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحران جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں اُن کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
شجاع الدین شیخ:دیکھیے! کچھ ظاہری وجوہات ہوتی ہیں اور کچھ باطنی ۔ ظاہری وجوہات یہ ہیںکہ ہم سیاسی سطح پر بالغ ہی نہیں ہو سکے ۔انڈیا ہمارے ساتھ ہی آزاد ہو تھا،مگر وہاں ایک دن کے لیے بھی مارشل لا ءنہیں نافذ ہوا جبکہ ہمارے ہاں کم و بیش آدھا وقت تو مارشل لاء میں گزرا ہے۔ ہمارا جاگیردارانہ نظام بہت مضبوط ہے جبکہ انڈیا نے آزادی کے فوراً بعد ہی اس نظام سے چھٹکارا پالیا۔ہمارے ہاں لوگ آدھا دن تو سو کر گزار دیتے ہیں۔دو بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ہم مغرب والوں کوبڑا کوستے ہیںکہ وہ بہت برے ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے ہمارے اپنے اندر بھی بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔پھر یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے بھی اپنی حدود میں نہیں رہتے ،ہر تھوڑے عرصے کے بعدوہ خود حکمران بن کربیٹھ جاتے ہیں اور سیاست دان بھی کسی طرح کم نہیں ہیں۔وہ اپنے انتقام لینے کے لیے انہی کے راستے پر آجاتے ہیں۔ البتہ یہ اسباب دنیا میں اور ملکوں میں بھی مل جائیں گے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے بغیر ہمارے ملک کی بقاء ممکن نہیں۔ دیکھیں فرانس میں رہنے والے ایک زبان فرانسیسی بولتے ہیں۔ وہ کسی بھی مذہب کے بغیرایک زبان پر متحد ہیں۔ جرمنی میں رہنے والے ایک جرمن نسل کی بنیاد پر چل رہے ہیں ۔ ملائیشیاجزیروں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ سب کا ایک جیسا خطہ ہے۔ وہ اس پر متحد ہیں۔ مصر اور چائنہ کاپانچ ہزار سال پرانا تاریخی پس منظر چلا ا ٓرہا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں زبانیںبہت زیادہ ہیں، بولیاں، ذاتیں، برادریاں بے شمار ہیں ،خطے کئی ہیں کراچی میں سمندر ہے ، پنجاب میں ہریالی ہے ، اوپر جائیں تو پہاڑ ہیں،لوگ ان چیزوں پر جمع نہیں ہوتے بلکہ بٹتے ہیں ۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے ساتھ جو وعدہ کر کے مملکت حاصل کی تھی ، ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے وفائی کی ہے ۔اب جب تک ہم اس اصل وعدے یعنی نظریہ ٔپاکستان کی عملی تعبیر کی تکمیل کی طرف نہیں جائیں گے، ہمارے معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔
س:مسلمانوں کے حالات تو دنیا بھر میں ہی خراب ہیں،آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟
شجاع الدین شیخ:بے شک اِس وقت دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان چین اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہوں۔فلسطین میں صہیونی افواج نے ظلم ودرندگی کے ریکارڈ قائم کر دئیے ۔ کشمیر میں بھارت کی جارحیت سب کے سامنے ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ عالم اسلام کی قیادت نے ذاتی مفادات کی خاطر چُپ سادھ رکھی ہے۔مغرب کی خوشنودی کے لیے جو مسلم ریاستیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں،ذہن نشین کر لیں کہ کل اُن کی باری ہوگی۔تحریک کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کرکے منظم کرنا ، اُنہیں اللہ والا بنانا اوردین کے نفاذ کا مطالبہ لے کر کھڑا ہونا ہم سب کادینی فریضہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت آدمd کو خلافت دی گئی،تمام انبیاءاکرامfاللہ تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور اب خلافت کی ذِمّہ داری اُمّتِ مسلمہ کے کندھوں پر ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان میں اسلامی نظام کو نافذ نہیں کیا جاسکا۔یہ اللہ تعالیٰ سے بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسلاف کی بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کئے گئے وطنِ عزیز میں ایک پاکستانی ہونے کے بجائے ہم نے پنجابی ،بلوچی،سندھی اور پٹھان کے طور پر اپنی پہچان بنا لی ہے۔1974 ءمیں قادیانیت کے مسئلے پر تحریک سڑکوں پرچلی،قانون سازی بھی ہوئی۔ ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اس باطل نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔لوگ روٹی ، کپڑا ، پانی ، گیس، بجلی، انکم ٹیکس کا ریٹ کم کروانےاورسیاست کے لیے تو کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین اور اسلامی احکام کا نفاذ کیوں لاوارث معاملہ ہے؟اسلام پر مکمل طور پرخود اور اپنے دائرہ کار میں موجود افراد کے لیے جو شخص کوشش نہیں کر رہا تو کس منہ سے 25 کروڑ عوام پردین کو قائم کرنے کی بات کرسکے گا۔جب میں اللہ تعالیٰ کے نظام کو لانے کی بات کر رہا ہوں تو کیا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیرہی ہو سکتاہے؟اسلام کی تعلیمات کو یکسر بھلانے کی وجہ سے ہی نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025