(زمانہ گواہ ہے) ’’غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کو خالی کروانے کا بیان دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا

اور حماس کو دوبارہ فتح حاصل ہوگی : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

حماس نے طوفان الاقصیٰ کا آغاز مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے

کیا تھا ، یہ صرف حماس کی جنگ نہیں بلکہ پوری اُمّت ِمسلمہ

کی جنگ ہے : رضاء الحق

GCC کانفرنس میں مسلم ممالک کو امریکی عزائم کے خلاف

ٹھوس مؤقف اپنانا چاہیے : بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ

’’غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے ایک نیامنصوبہ پیش کیا ہے کہ جو بچے کچھے مسلمان غزہ میں رہ گئے ہیں ان کو اُردن اور مصر میں دھکیل دیا جائے اور غزہ کو بالکل خالی کرکے امریکی تحویل میں دے دیا جائے جہاں وہ تعمیر نو کر سکے ۔ ٹرمپ کے اِس منصوبے کے پس پردہ کیا مقاصد ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کے لحاظ سے نیا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پہلے بھی جب موصوف اقتدار میں آئے تھے تو ایک کلچرمتعارف کرنے کی کوشش کی تھی،’’ امریکی مفاد سب سے عزیز ہے‘‘مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ تنہا رہ گیا تھا ۔ اب پھر انہوں نے وہی شاہانہ طرز ِتکلم اختیار کرتے ہوئے خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ رکھنے کا اعلان کر دیا ،نہر پانامہ پر امریکی جھنڈا لہرانے کی بات کی، کینیڈا جو کہ امریکہ کا فطری اتحادی ہے، اس کو اپنی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا ۔اسی طرح فرمایا کہ وہ گرین لینڈ کو خرید لیں گے، غزہ کو لے لیں گے۔ ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف وہی پرانی مطلق العنان بادشاہی والا انداز کہ ہم جو چاہیں خرید لیں ۔ یہ مضحکہ خیز طرزعمل ہے جس کی وجہ سے امریکن ادارے مشکل میں پھنس چکے ہیں ۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ چونکہ غزہ ملیا میٹ ہو چکا ہے اس لیے اس کو نئے سرے سے تعمیر ہونا چاہیے ،کبھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ کا رئیل اسٹیٹ کا بزنس ہے، اس لیے ارادہ ہے کہ غزہ کوسیاحتی شہر بنا دیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ چونکہ اُردن اور مصر اُن کے گھڑے کی مچھلیاں ہیں ، اس لیے اُن کو دباؤ میں لا کر فلسطینیوں کو وہاں بسا دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ کسی بھی قوم کو اُس کے ملک سے نہیں نکالا جا سکتاہے ، فلسطینیوں کی سرزمین ہے ، اُن کی اپنی ایک تاریخ اور جدوجہد ہے ۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ کسی نے اعلان کر دیا تو فلسطینی اپنا وطن چھوڑ دیں گے ۔ ایک ایک فلسطینی مرد ، بوڑھے ، بچے اور عورت نے یہ کہا ہے کہ ٹرمپ کا باپ تو کیا دادابھی ہم سے ہمارا وطن چھین نہیں سکتا ۔ فلسطینیوں نے سوا سال کی جنگ میں اپنے عزم اور استقامت کو ثابت بھی کیا ہے ۔ آخر کار جس طرح ٹرمپ کو کینیڈا کے حوالے سے بیان دے کر پیچھے ہٹنا پڑا ہے ، ٹیرف کے معاملے میں پیچھے ہٹنا پڑا ہے اِسی طرح اس کو غزہ کے معاملے میں بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا ۔ خود امریکہ کے اندر بھی اس کے خلاف ایک لہر چل رہی ہے کیونکہ اُس نے کہا تھا ٹیکس کے پیسوں کو جنگوں میں نہیں لگاؤں گا ۔ اب اس یوٹرن پر بھی لعن طعن ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف عرب ممالک بھی 20 لاکھ مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ان شاء اللہ حماس کو اس دیوانے کی بڑ کے خلاف بھی فتح حاصل ہوگی ۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
سوال: حماس کے ساتھ جنگ بندی کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں بہت گرم جوشی نظر آرہی ہے ۔ جوبائیڈن نے اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روک دی تھی لیکن ٹرمپ نے آتے ہی نہ صرف اس کو جاری کروایا بلکہ نئی قسط بھی جاری کر دی ہے جس میں بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود شامل ہے اور غزہ کو خالی کرنے کا پلان بھی دے دیا ہے ۔ نیتن یا ہو کا بھی بیان ہے کہ اگر یہ پلان منظور نہیں تو سعودی عرب میں ایک فلسطینی ریاست قائم کرلیں ۔ یعنی وہ فلسطین سے ہر صورت مسلمانوں کو نکالنا چاہتاہے ۔ اس سارے تناظر میں بتائیے کہ حالات کس طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؟
بریگیڈیئررفعت اللہ:ٹرمپ اور نیتن ڈپلومیسی تین ’N‘کا امتزاج ہے :نروس(nerves)،نیریٹوز (narratives) اور نائونسز (nuances)۔(1)کسی بھی ملک کے لیڈر کی اپنےnerves(اعصاب ) پر کنٹرول کی کیفیت بہت کچھ بتاتی ہے ۔ جیساکہ اُردن کے بادشاہ کی ٹرمپ کے ساتھ حالیہ تصویر میں باڈی لینگویج مکمل طور پر شکست خوردہ تھی ۔اِسی طرح نیتن یاہو بھی اپنے عوام کے سامنے شکست خوردہ لگ رہا ہے ۔ اِس کے مقابلے میں حماس کے لیڈر ز یا اہل غزہ کی باڈی لینگویج ان کے پختہ عزم کا پتا دیتی ہے ۔ (2)۔ جنگ کے دوران آپ ایسا بیانیہ تخلیق کرتے ہیں جس میں اپنے دشمن کو کمزور ظاہر کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ٹرمپ نے ایک بیانیہ گھڑ لیا کہ ہم غزہ کو خالی کروائیں گے اورنیا شہر تعمیر کریں گے ۔ ایسا ہوگا یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا اوراب GCCکانفرنس میں عرب ممالک کا بیانیہ بھی سامنے آ جائےگا ۔ (3)۔ پالیسی بیان کے مختلف معانی ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ دائیں بازو کے اسرائیلی رہنما سماٹرچ نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ : غزہ اُن لوگوں کا نہیں ہے جو غزہ میں اس وقت رہتے ہیں ان میں سے 70 فیصد 1948ء کے مہاجرین ہیں ۔ یعنی کہ مختلف جنگوں میں فلسطینیوں کو مغربی کنارہ ، ہائفہ اور دیگر علاقوں سے زبردستی نکال کر غزہ کی طرف دھکیلا گیا اور اب وہاں سے بھی ان کو نکالا جارہا ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ 20 لاکھ مہاجرین کو مصر ، اُردن یا سعودی عرب قبول کرے گا؟ کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد اِن ممالک کی ڈیموگرافک پروفائل کو ہی تبدیل کر دی گی جو کہ یہ ممالک کبھی برداشت نہیں کریں گے۔
سوال: ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور حکومت میں ابراہم اکارڈ کے نام پر عرب ممالک سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم شفٹ ہوا اور بہت سی خلیجی ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کی ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے اس دور حکومت میں بھی ابراہم اکارڈ کے منصوبے کو آگے بڑھائے گا ؟
رضاء الحق:الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ مجھے ووٹ دیں میں اسرائیل اور نیتن یاہو کو جنگ بند کرنے پر مجبور کروں گا لیکن یہ سب دکھاوا تھا ۔ اصل میں ہر امریکی صدر کو باقاعدہ منصوبے کے تحت لایا جاتاہےاور اس کو لانے کے لیے بڑی لابیاں سرگرم ہوتی ہیں۔ ان میں ایک ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہے ، دوسری یہودی لابی ہے اور تیسری انڈین لابی ہے ۔ یہ تینوں لابیز ٹرمپ کے حق میں ہیں ۔ اپنے پچھلے دور میں بھی وہ ان لابیز کے ہاتھوں میں کھیلا تھا ۔ اُس نے ابراہیم اکارڈ کے نام پر معاہدہ کروایا جس کے ذریعے بعض خلیجی اور افریقی مسلم ممالک اسرائیل کے قریب ہوئے ۔ ان ممالک میں اسرائیل کے سفارت خانے کھل گئے ۔ تجارت اور تسلیم کرنے تک نوبت جا پہنچی ۔یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنایاگیا اور اسرائیل میں جیوش نیشن سٹیٹ لاء پاس کروایا ۔ اب بھی صہیونی منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے ٹرمپ کو لایاگیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ منصوبے کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔ اگر غزہ کو جدید شہر کے طور پر تعمیر کیا جاتاہے تو یہ محمد بن سلیمان کے ویژن 2030ء کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے ۔ اسی طرح اُردن اور مصر بھی اس منصوبے کو نہیں مانیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہل غزہ کسی صورت غزہ کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اگر چین اور روس کی مداخلت بھی ہوئی تو یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا ۔ حماس نے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے طوفان الاقصیٰ کے نام سے یہ جدوجہد کی ہے اور یہ صرف حماس کی جنگ نہیں بلکہ پوری اُمت ِمسلمہ کی جنگ ہے ۔ اس طرح کی تحریکوں کو طاقت کے زور پرہرگزختم نہیں کیا جا سکتا ۔
سوال: امریکی حکومت کا ایک تازہ ترین بیان آیاہے کہ حماس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور یہ کہ امریکہ حماس کی فوجی اور حکومتی قوت کو کسی صورت قبول نہیں کرےگا۔ موجودہ حالات میں امریکہ کا یہ بیان کیا معنی رکھتا ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:یہ اعلان تو اُنہوں نے بہت پہلے بھی کیاتھا، جب 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کا آغاز ہوا تھا ۔ اُس وقت اُنہوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سات دنوں کے اندر اس کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن حقیقت وہ ہے جو قرآن بتاتا ہے :
’’یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔‘‘(الصف:32)
ایک طرف اسرائیل ،امریکہ ، یورپ اور بھارت سمیت دنیا کی طاقتیں اور تمام ٹیکنالوجی تھی اور دوسری طرف حماس کے چند ہزار مجاہدین تھے ۔ دنیا نے دیکھا کہ سواسال کی جنگ میں عالمی طاقتوں کو شکست ہوئی ہے ۔ تل ابیب کے ایئر پورٹس بھاگ جانے والے اسرائیلوں سے بھرے ہوئے تھے جبکہ دوسری طرف غزہ کے مسلمان بچے اور عورتیں بھی ڈٹ کر ظلم کا مقابلہ کرتے رہے ۔ جس حماس کو امریکہ اور اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیا تھا اسی کے ساتھ بیٹھ کر قطر میں معاہدہ کیا ۔ گویا حماس کو انہوں نے فریق تسلیم کیا اور یہ ان کی بہت بڑی شکست ہے اور حماس کی اخلاقی فتح بھی ہوئی ہے ۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جہاں بھی امدای سامان پہنچا ہے وہاںکوئی لوٹ مار نہیں ہوئی جبکہ دوسری طرف اسرائیل نے امدادی ٹیموں کا قتل عام کیا اور عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑائیں ۔
رضاء الحق:معاہدہ میں جو شرائط طے ہوئی تھیں ان میں یہ بھی شامل تھا کہ غزہ میں بجلی ، گیس اورموبائل گھروں
کے انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیرکرنے والی بھاری مشینری کو اسرائیل نہیں روکے گا مگر اس پر بھی اسرائیل نے پابندی لگادی ہے ۔ اس کے علاوہ طے ہوا تھا کہ 700 میٹر کے بفرزون میں کسی پر فائرنگ نہیں کی جائے گی مگر وہاں بھی اسرائیل نے فائرنگ کرکے لوگوں کو شہید کیا ۔
سوال:اگر غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کا منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو پاکستان پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پریشر آئے گا۔ اگر ایسا ہوتاہے تو ہماری حکمت عملی کیا ہوگی ؟
بریگیڈیئررفعت اللہ:اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے مصرنے 1978ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے بعد اسرائیل کو تسلیم کیا ۔ اس کے بعد اُردن نے 1994ء میں تسلیم کرلیا اور معاہدہ میں صرف تجارت ہی شامل نہ تھی بلکہ ایک دوسرے کی سکیورٹی میں مدد بھی شامل تھی ۔ اس کے بعد 2020ء میں ابراہیم اکارڈ کی وجہ سے متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مراکش ، سوڈان سمیت کئی چھوٹے چھوٹے ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔ سب سے بڑھ کر سعودی عرب کا انتظار تھا کہ وہ کب اسرائیل کو تسلیم کرتاہے۔ پھرانڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور (IMEC) کا منصوبہ بنایا گیا جس کےذریعے ایک طرف ایران اور چین کا گھیراؤ مقصود تھا اور دوسری طرف سعودی عرب کو بھی ملوث کرنا مقصد تھا ۔ مگر 7 اکتوبر 2023ء کے حماس کے حملہ نے ابراہیم اکارڈ کو ریورس گیئر میں ڈال دیا ۔ اب دوبارہ اگر یہ منصوبے شروع ہوتے ہیں تو پاکستان پر بھی پریشر آئے گا ۔اگر انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور بنتاہے اور غزہ کو خالی کرواکر وہاں اسرائیل کا تیسرا اہم ترین پورٹ بنتا ہے تو اس کو ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے درمیان ایک تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور عرب ممالک سےتیل اور گیس کی تجارت بھی بحیرہ روم کے ذریعے یورپ اور امریکہ سے ہوتی ہے ۔اب اگر عرب ممالک کی کانفرنس میں عرب ممالک کوئی جاندار موقف اختیار کرتے ہیں تو شاید غزہ کو خالی کرنے کے حوالے سے امریکی منصوبے میں رکاوٹ آجائے۔ عربوںمیں عرب نیشنل ازم بھی دوبارہ اُبھر رہا ہے ۔ لہٰذا ان کے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں توعرب سپرنگ دوبارہ اُبھرے گی ۔دوسرا یہ کہ سعودی عرب کو عالم اسلام کے لیڈر کی حیثیت حاصل ہے اگر وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو تنہا رہ جائے گا ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ایران کو خطہ میں مقبولیت حاصل ہو جائے گی۔ ان وجوہات کی بناء پر فی الوقت عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونا ممکن نہیں ہے اور اس صورت میں پاکستان پر براہ راست پریشر نہیں آئے گا ۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ۔
سوال:ٹرمپ کےامریکی صدر بنتے ہی نریندر مودی نے بھی امریکہ کا دورہ کیا ہے اور ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ سرحد پار سے کوئی دہشت گردی نہیں ہوگی ۔ یہ بیان موجودہ حالات میں کیا معنی رکھتا ہے ؟
رضاء الحق:انڈیا کے اپنے پریس کے مطابق نریندر مودی نے انڈیا کو امریکہ کے ہاتھوں بیچ دیا ہے ۔ امریکہ کے ساتھ اس کے جو معاہدے ہیں اُن کے تحت فائدہ صرف امریکہ کو ہوا ہے جبکہ انڈیا کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ۔ نریندر مودی نے امریکہ جاکر پاکستان کے خلاف وہی پرانے اور گھسے پٹے الزامات لگائے ہیں جن میں 2006ء کے ممبئی حملوں ، جیش محمد، لشکر طیبہ اور دراندازی وغیرہ کا ذکر ہےجن کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی ۔ انڈیا کے ساتھ امریکی معاہدوں کا ایک مقصد چین کا گھیراؤ اور پاکستان پر پریشر بڑھانا بھی ہے لیکن ٹرمپ زیادہ توجہ مڈل ایسٹ پر دے گا ۔ پاکستان اس وقت معاشی ، سیاسی اور عسکری طور پر امریکہ کا غلام بن چکا ہے لہٰذا مریکی پریشر کو برداشت کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا ۔ لیکن اگر احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسی خطہ سے اسلامی لشکر جاکر حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ؑ کا ساتھ دیں گے ۔یہ چیزیں صہیونیوں کو معلوم ہیں شاید اسی لیے وہ پاکستان کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ 1967ء کی جنگ کے بعد بن گوریان نے پاکستان کو عربوں سے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا تھا ۔ نیتن یاہو بھی اپنےایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کر چکا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک ہونا چاہیے۔ اگر یہاں اسلامی حکومت آجاتی ہے تو ہماری میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا درست استعمال ہو سکتاہے ۔ اس صورت میں اسرائیل کے لیے ایک دھمکی بھی کافی ہو گی۔
سوال: پاکستان کے پاس اٹامک اور میزائیل ٹیکنالوجی ہے ۔ کیا یہ سچ ہے کہ اس وجہ سے پاکستان پر براہ راست پریشر نہیں آئے گا ؟
رضاء الحق:پریشر تو پہلے بھی آچکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا ۔ ڈاکٹر نسیم اشرف جو کہ PCB کے چیئرمین بھی رہے ہیں، انہوں نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ پاکستان تو مشرف دور سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار تھا ۔ انہوں نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے حوالے سے بھی غلط بیانی کی کہ ڈاکٹر صاحب اسرائیل سے مذاکرات کے حق میں تھے ۔ حالانکہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا ۔ ان کا صرف ایک ہی موقف تھا کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور صہیونیوں کا وہاں ریاست قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ بہرحال اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان پر مستقبل میں بھی پریشر آئے گا کیونکہ پاکستان پہلے تو سعودی عرب کا صرف تیل کے حوالے سے محتاج تھا مگر امداد کے لحاظ سے بھی محتاج ہے ۔اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا تو پاکستان کے لیے مجبوری بن جائے گی ۔
سوال:اسرائیل ،امریکہ اور ان کے حواریوں نے 90 فیصد غزہ کو ملیا میٹ کر دیا ہے ، بچوں اور عورتوں سمیت 50ہزار مسلمانوں کو شہید کیا اور اس کے بعد غزہ کو خالی کرنے کا نیا منصوبہ سامنے آرہا ہے ۔ ان حالات میں اسلامی ممالک اور OIC کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: صہیونیوں کا اصل منصوبہ گریٹر اسرائیل اور عالمی دجالی نظام ہے ۔ اس کا اظہار ان کے بیانات سے بھی ہوتا ہے اور ان کے جھنڈے اور ترانوں میں بھی ہوتاہے ۔ اس میں وہ شام ، لبنان ، اردن ، عراق کو بھی شامل کرتے ہیں ، مصر کے کچھ علاقوں کو بھی اور نعوذ بااللہ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف سمیت سعودی عرب کے کچھ علاقوں پر بھی نظر رکھتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے عرب ممالک اس کے باوجود بھی غفلت کا شکار ہیں ۔ ان سارے خطرات سے نمٹنے کے لیے عالم اسلام پر لازم ہے کہ وہ دوبارہ ایک امت کی شکل اختیار کرے اور اپنے اس فریضہ کو ادا کرنے کی کوشش کرے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے :
اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین اُمّت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اوریہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں (البقرہ:143)
دوسری جگہ فرمایا :
(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(آل عمران:110)
اب اُمت کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ایک ایک کر کے مرنے کی بجائے متحد ہو کر مقابلہ کیا جائے ۔ OIC ، عرب لیگ ، یہ سارے مل بیٹھ کر اپنا پلان بنائیں ۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملتہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہسرجھکا کر بزدلی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائےجرأت مندی کا راستہ اختیا رکیا جائے ۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میںپہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارااُمت کے پاس جہاد اور اتحاد کا راستہ ہے ، ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرے اور اپنے منصوبے بنائے ۔
سوال:مسلم اُمہ کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟
بریگیڈیئررفعت اللہ: اس وقت حقیقت میں تو امت مسلمہ وجود نہیں رکھتی ، ہم مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ آئندہ کچھ دنوں میںGCCکانفرنس ہو رہی ہے ۔ اس میں معلوم ہو جائے گا کہ مسلم ممالک کیا مؤقف اپناتے ہیں ۔ اگر مسلم ممالک ایک ایجنڈے اور ایک سلوگن کو اختیار کریں تو یہ ایک ایسا اتحاد بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو گریٹر اسرائیل کو بننے سے روک سکتا ہے۔
سوال:آزاد فلسطینی ریاست کےقیام کے حوالے سے اُمت مسلمہ کو کیا کرنا چاہیے ؟
رضاء الحق: سب سےپہلے تو مسلم ممالک کو ان خطرات کا اداراک ہونا چاہیے جو ان کے سروں پر کھڑے ہیں۔ کیونکہ نہ صرف عرب ممالک کی سلامتی داؤ پر لگی ہے بلکہ ان کا اقتدار بھی خطرے میں پڑسکتاہے ۔ (2)۔ مسلم ممالک اپنا ایک مؤقف رکھیں کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے ، صہیونیوں کو اس پر ناجائز قبضہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ (3)۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ، بہترین میزائل ٹیکنالوجی کا حامل ہے ، افغانستان کے پاس بہترین اور تربیت یافتہ جنگجو ہیں ، ترکی کے پاس بہترین ٹیکنالوجی ہے ، ملائشیا اقتصادی میدان میں بہتر ہے ، اسی طرح ایران اور جی سی سی کے ممالک بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں یہ سب ایک ایجنڈے پر متحد ہو جائیں تو ایک طاقت بن سکتے ہیں اور فلسطین کے حوالے سے اپنا غیر متزلزل اور مستحکم موقف اختیار کریں کہ امریکہ کا فلسطین میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے اور ارضِ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے ۔