اداریہ
رضاء الحق
ایک پھیکا قانون…
سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے اگرچہ اِس صدی کی پہلی دہا ئی میں ہی سمارٹ فونز کے استعمال میں اضافے کے ساتھ باقاعدہ طور پر ایک عفریت کا روپ دھارنا شروع کر دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس قدر سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز اور اُن پر موجود صارفین کی تعداد میں اضافہ گزشتہ ایک دہا ئی کے دوران دیکھنے میں آیا ہے، اس کی مثال جدید تاریخِ انسانی میں شاید ہی کوئی اور ملتی ہو۔ 1436ء میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے کتابوں کی طلب و رسد اور اشاعت کا بازار جس تیزی سے گرم ہوا تھا شاید وہ سوشل میڈیا کے’’انقلاب‘‘ کی قریب ترین مثال ہو۔ تحقیق کرنے والے بعض غیر سرکاری اداروں کے مطابق جنوری 2025 ء تک دنیا بھر میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 5.42ارب تک پہنچ چکی ہے۔ انہی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس وقت دنیا کے 120 ممالک میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کسی نہ کسی صورت میں قوانین موجود ہیں۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر شے کے کچھ فوائد اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی اس اصول سے مبرا نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں شراب اور جوئے کی حرمتِ قطعی کے حکم (سورۃ المائدہ: 90،91) سے قبل سورۃ البقرہ کی آیت 219 میں ایسی اشیاء کے استعمال جن میں ایک قسم کےنشہ کی سی کیفیت پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہو، اس پر انسانیت کو اصولی رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ گویا جس طرح شراب اور جوئے میں بھی احکام الٰہی کے مطابق کچھ منفعت ضرور ہے، لیکن اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائیوں کا نسبت تناسب بہت زیادہ ہے، لہٰذا قرآن ہی نے جوئے اور شراب کو مستقلاً حرامِ قطعی قرار دیا۔ یہاں ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال کو جوئے اور شراب سے جوڑیں۔ بات اصول کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور صارفین میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اُس سے اِس کی برائی کے اَن گنت پہلو سامنے آئے ہیں۔
پلیٹ فارمز کی بات کریں تو سطح پر ہی فیس بک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، X (سابق ٹویٹر) وغیرہ دکھائی دیتے ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا میں یوٹیوب اور ٹک ٹاک کے نام دو سال کا شاید ہر بچہ جانتا ہے۔ پھر یہ کہ 2020ء سے ہونے والی مصنوعی ذہانت میں بے پناہ ترقی نے برائیوں کے مزید راستے کھول دیئے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں تاریخ کا دھارا جب ایک طرف چل پڑے تو اپنے مخالف کھڑے ہونے والوں کو خش و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ کمپیوٹر ایجاد ہوا تو ٹائپ رائٹر کا جنازہ پڑھ لیا گیا۔ ڈیجیٹل کیمرے منظر عام پر آئے تو رِیل والے کیمروں اور انہیں بنانے والی کمپنیوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ انسانی عقل اور معاشرتی اقدار کا یہ ارتقائی عمل روزِ اوّل سے جاری ہے۔ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا دنیا بھر کی خبروں اور اُن پر تبصروں، معیشت کے میدان میں ایک جزو لاینفک بن جانے، سات سمندر پار رہنے والے اعزہ و اقارب سے رابطہ اور دینی معلومات کو دنیا کے کونے کونے تک بہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ گویا ایک اُفتاد بھی نازل ہوگئی۔ ایک بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا مغرب کی ایجاد ہے لہٰذا وہ اپنے دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اُسے بھرپور طریقے سے استعمال میں لائیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہر ملک کا ایک مخصوص معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی پسِ منظر ہوتا ہے اور تاریخِ انسانی میں ایسا شاذ ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ قوموں کےعمومی مزاج کو زیادہ عرصہ تک دبایا جاسکے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر بداخلاقی، بدتمیزی، بد ظنی، دوسروں کی اہانت کرنے اور مذاق اُڑانے، فحاشی و عریانی کو پھیلانے، فرقہ واریت کو ہوا دینے، دینی اقدار و شعائر کی تضحیک کرنے، جھوٹی یا نا مکمل معلومات فراہم کرنے اور ملکی مفاد کے خلاف بیانیہ کو پھیلانے جیسے چیلنجز بھی سامنے آئے۔ ان میں سے بعض اخلاقی رذائل تو ایسے ہیں جن کو قرآن حکیم نے ترک کرنے کا خود حکم دیا ہے۔ (سورہ الحجرات: آیات 6, 11 اور 12) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کی جنگ ہائبرڈ وار کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کسی مخصوص بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اِن تمام معاملات میں سویلین اور غیر سویلین کی بھی تخصیص نہیں۔ فیک نیوز کو ہی لے لیجئے۔ سوشل وڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر بیٹھے صحافی جہاں فیک نیوز پھیلانے کے مرتکب ہوئے، وہیں حکومتِ وقت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے پیچھے نہیں رہے۔
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کیے دیتے ہیں کہ پاکستان میں ایک عرصہ سے فیصلوں کا مرکز و محور اسلام آباد سے پنڈی منتقل ہو چکا ہے اور جمہوریت کی آڑ میں ہائبرڈ نظام سکہ رائج الوقت ہے۔ پھر یہ کہ کسی قانون کو عوامی حمایت دلانی ہو تو ’’توہین مذہب‘‘ اور ’’ملکی سلامتی و دفاع‘‘ کی بیخ کنی سے متعلق شقیں اُس میں ڈال دیں۔ دوسری طرف اس نوعیت کے خُبث باطن کا واضح اظہار کرنے والوں کو کسی قانونی سقم کا بہانہ بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے یا وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ متعلقہ قوانین موجود ہیں اور ایک عرصہ سے تعزیراتِ پاکستان کا حصّہ ہیں۔ اصل معاملہ تو اُن پر عمل درآمد کا ہے۔
بہرحال مادر پدر آزاد ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا ایک خواہش تو ہو سکتی ہے حقیقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو بھی کسی مہذب معاشرے میں اصلاحِ معاشرہ کے اصولوں کو بنیاد بنا کر ایک نظم کے تحت لانا یعنی ریگولیٹ کرنا ناگزیر ہے۔ مختلف ممالک نے یہ کام کئی طریقوں سے کیاہے۔ مثلاً چین نے جہاں مغربی ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائیں، وہیں اُن کے متبادل چینی پلیٹ فارمز بھی صارفین کو فراہم کیے (کئی سوفٹ ویئر پارکز بنانے کے باوجود ہم ایسا نہ کر سکے!)۔ یورپی یونین کی توجہ زیادہ تر صارفین کی ذاتی تفصیلات کو محفوظ کرنے اور نقصان دہ مواد کو مختلف پلیٹ فارمز سے ہٹانے پر رہی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امریکہ کا بھی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بادشاہتوں نے اپنی اونچی ناک کو کٹنے سے بچانے کے لیے بعض پلیٹ فارمز بند کیے اور سخت ترین قوانین بھی بنائے۔ عرب ممالک میں حکمرانوں پر جائز تنقید کرنے والے کئی جید علماء آج بھی مفقود الخبر ہیں۔ (عرب ممالک اور پاکستان میں یہ قدرِ مشترک بھی پائی جاتی ہے!) اسرائیل نے سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے دجالی جال کو بُننے میں اہم کردار ادا کیا، لہٰذا تقریباً تمام مغربی دنیا کے پلیٹ فارمز اُس کے قبضے میں ہیں۔ علاوہ ازیں صارفین کی ذاتی اور ممالک کی اہم معلومات تک رسائی کے لیے سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہیک کرنے والے جاسوسی کے اکثر سافٹ ویئرز اور ایپس کا موجد بھی وہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی غزہ کے مسلمانوں پر وحشی صہیونی اسرائیل کی ساڑھے 13 ماہ تک مسلسل بمباری اور دل ہلا دینے والے مناظر دنیا نے دیکھے۔ 2025ء کا بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک نہیں رہ گیا بلکہ مودی اور اس کے معاونین کی فسطائیت پر مبنی حکومت کا میدانِ کار کشمیر اور خود بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی ہیں اور مودی سرکار کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے دوسرے لوگ بھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباً ان تمام ممالک میں سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں نظم کو قائم رکھنے کے لیے بنائے گئے قوانین عمومی طور پر شہری و دیوانی نوعیت کے ہیں (civil laws)، فوجداری نوعیت کے نہیں (criminal laws)۔ البتہ پاکستان کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں کیونکہ اِس مملکتِ خداداد کی کوئی کل سیدھی ہی نہیں۔ اگرچہ ڈیفمیشن (ہتک عزت) آرڈیننس 2002ء میں پاکستان کے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کی گئی ہر نوع کی اہانت، کردار کُشی اور فیک نیوز کو روکنے کالائحہ عمل موجود ہے، جس میں زبانی slander اورتحریری lible اہانت سمیت ایسے جرائم سے تحفظ کی مکمل ضمانت بھی موجود ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تک اس قانون کے تحت سیاسی مقدمے بنانے کے سوا کچھ اور نہیں کیا گیا۔ اسی نوعیت کی تازہ مثال الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا (ترمیمی) قانون 2025ء
(2025ء Prevention of Electronic Crimes Amendement Act ) ہے۔ پیکا (PECA) پہلی مرتبہ 2016 ءمیں نواز شریف کے تیسرے دورِحکومت میں نافذ کیا گیا۔ پھر 2019ء سے 2022ء تک پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پیکا (ترمیمی) ایکٹ منظور کروانے کی جان توڑ کوشش کی اور بالآخر اُس وقت کے صدر مملکت نے پیکا (ترمیمی) آرڈیننس2022ء کو اُس سال کے فروری میں جاری کر دیا۔ لیکن اس آرڈیننس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں کئی اپیلیں دائر کی گئیں اور 7اپریل 2022ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔
بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان نے بھی اِس حقیقت کا ادراک کم از کم 2013ء سے ہی کر لیا تھا کہ مقبولیت کا پلڑا خواہ اُن کے حق میں کتنا ہی جھکا ہو، ’’طاقت‘‘ کا توازن فیصلہ کن حیثیت میں اُن کے سیاسی اور دیگر حریفوں کے حق میں ہے۔پھر 2018ء کے الیکشن میں جب اُنہیں کامیابی دلوائی گئی تو اُنہوں نے ایک (مروجہ) زیرک سیاست دان ہونے کے ناطے یہ اندازہ بھی لگا لیا تھا کہ مستقبل کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے بھی اپنی تقاریر میں غیراخلاقی اور غیر پارلیمانی گفتگو کو ایسا رواج دیا کہ عوامی جلسوں سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا تک اُن کے ووٹروں اور سپوٹروں میں سرایت کر گیا اور اُن کی گفتگو کا حصّہ بن گیا۔ ہمارے نزدیک ہرسیاسی جماعت کا فرض ہے کہ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کی ایسی تربیت کرے کہ اُن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ اخلاقیات کے دائرہ کار میں حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ، سبھی 77 سال سے ناکام رہے ہیں۔ بہرحال پیکا (ترمیمی) ایکٹ 2025ء سال کے آغاز سے پاکستانی قانون کا حصّہ بن چکا ہے۔ اگرچہ 2022ء کے ترمیمی قانون کی وجۂ جواز بھی ’’فیک نیوز کی روک تھام‘‘ بتائی گئی تھی، لیکن 2025ء کے قانون میں اور بھی بہت کچھ بدل دیا گیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی تعریف کی گئی اور الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لیے ایک نیا ادارہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا پر ہونے والے کسی جرم کی تفتیش کے لیے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے نام سے ایک نیا تفتیشی ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 14 فروری 2025ء کو اس قانون کے تحت پہلی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ قانون کے مطابق زیرِ حراست شخص کے مقدمہ کی سماعت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹرائبیونل کرے گا جس کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر مجرم کو تین سال تک کی قید اور 20 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس قانون کو بھی اشرافیہ ایک خاموش ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔ طاقتور حلقوں اور حکومتِ وقت کی پسند، ناپسند کی بنیاد پر کالم نگاروں، ٹاک شوز کے اینکرز، وی لاگ کرنے والوں اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز وغیرہ کو زیرِ عتاب لایا جائے گا۔ پھر یہ کہ اِس قانون میں سزاؤں کے اضافے سے صحافت کی رہی سہی آزادی بھی ختم ہو جائے گی۔ حکومتِ وقت اور طاقتور حلقوں کے سوا پاکستان کے ہر شہری پر اس قانون کی تلوار ہر دم لٹکتی رہے گی۔ یہ قانون ایک مخصوص اور زیرِعتاب سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا پر موجود کارکنان کو ٹارگٹ کرے گا البتہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر سعد رفیق نے اِس قانون پر انتہائی صحیح اور جاندار تبصرہ کیا ہے کہ ’’قوانین کی چھڑی ہمیشہ وقت بدلنے کے ساتھ اُسے بنانے والوں کے خلاف ہی استعمال ہوتی ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے رذائل حقیقی ہیں اور تمام پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون حکومت، اپوزیشن، مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور پاکستان کے عام شہریوں پر یکساں لاگو ہوگا؟ کیا یہ قانون اُس وقت بھی حرکت میں آئے گا جب کوئی وفاقی یا صوبائی وزیر، کوئی بڑا بیوروکریٹ یا مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بڑا آدمی غیر مصدقہ خبر پھیلائے گا اور اِسی قانون کے تحت جن 16 اقسام کے مواد کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے، اسے شیئر کرنے کے جرم کا مرتکب ہو گا؟ یقیناً فیک نیوز ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر اخلاقی رذائل کے علاوہ اسلام مخالف اور پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد کثرت سے پھیلایا جا رہا ہے۔ ان تمام جرائم کی بیخ کنی ضروری ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2019ء میں EU DisinfoLab نے 15 برس پر محیط پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی سازش کو Indian Chronicles کے نام سے انتہائی عرق ریزی سے تیار کردہ تحقیقاتی صحافت پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی جن اکاؤنٹس سے اسلام مخالف اور پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔
پیکا (ترمیمی) قانون 2025ء کو کالعدم قرار دینے کے لیے صحافیوں کی کئی تنظیموں اور پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ابتدائی فیصلہ میں اپیلوں کو مسترد تو کر دیا ہے لیکن ساتھ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اس قانون کے خلاف اپیل کرنے والے مکمل تیاری کے ساتھ آئیں۔ گویا قوم اس معاملے پر ایک طویل عدالتی جنگ کے لیے تیار رہے۔ ہماری تمام سوشل ڈیجیٹل میڈیا صارفین سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ ایسے پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے وقت اسلام کے زریں اخلاقی اصولوں کو سامنے رکھیں اور اپنائیں۔ دوسری طرف حکومتِ وقت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کی حکومت کل کی اپوزیشن ہوتی ہے۔ خطے کی صورتحال سب کے سامنے ہے لہٰذا حکومت اور مقتدر حلقے شخصی پسند و ناپسند، انانیت اور اپنوں پر ہی غصّہ کرنے کی روش کو ترک کریں۔ ہم سب مل کر خود کو اُن جنگوں کے لیے تیار کریں جو سر پر کھڑی ہیں اور جن میں عالمی طاغوتی قوتیں پاکستان کو گھسیٹ کر اُس کے ایٹمی دانت توڑنا چاہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ایٹمی پاکستان بنائے۔ آمین یا رب العالمین!