(زمانہ گواہ ہے) ’’Pornographic Blasphemy ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

حدیث کی رو سے جب حیا ختم ہو جائے تو انسان گناہوں کی

غلاظت میں بڑھتا چلا جاتاہے ، Pornographic Blasphemy

اس کی ایک زندہ مثال ہے :رضاء الحق

توہین مذہب کے اس بدترین فعل میں ملوث افراد کو ریاست قرار

واقعی سزا دے تاکہ دوسروںکو عبرت حاصل ہو : عبدالوارث گل

کمیشن بنانے کا مطالبہ توہین مذہب کے مجرموں کو ملک سے

فرار کروانے کی ایک سازش ہے : قیصر احمد راجہ

’’Pornographic Blasphemy ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : آصف حمید

 

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے توہین ِ مذہب (Blasphemy)کا ایک پورا گروپ متحرک ہے۔ اس فتنہ کے حوالے سے آگاہی دیجئے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے اور لوگ کس طرح اس کا شکار ہورہے ہیں ؟
عبدالوارث: بدقسمتی سے یہ توہین مذہب کی اب تک کی سب سے بدترین شکل ہے ۔ پہلے ہم سنتے تھے کہ کسی نے قرآن پھاڑ دیا ، جلا دیا ، پیغمبروں کی شان میں گستاخی کردی اور اسے ہم توہین مذہب کہتے تھے لیکن اب جو فتنہ پھیل رہا ہے اس میں اس قدر بدترین توہین کا ارتکاب کیا جارہا ہےکہ اسے بیان کرتے ہوئے انسان لرز جاتاہے ۔ یہ بدترین شیطانی طریقہ کار ہے جس میں ننگی اورگندی تصاویر پر مقدس ہستیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں یا ایسی گندی ویڈیوز ہوتی ہیں جن میں بدکاری کی جارہی ہوتی ہے اور اس میں جائے نماز یا قرآن دکھایا جاتاہے ۔اس غلاظت کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے جعلی IDsاور پیجز سے شیئر کیا جاتاہے اور ان جعلی IDsکے نام بھی اسلامی رکھے جاتے ہیں جس سے ایک عام آدمی اور دینی طبقہ کے لوگ بھی دھوکہ کھا سکتے ہیں ۔ جیسے ہی وہ اس میں انٹر ہوتے ہیں تو آگے ان کو کچھ گندی اور ننگی تصاویراور ویڈیوز ملتی ہیں ۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آپ اس کو دو لوگوں تک شیئر کرو تو آپ کو گروپ یا پیج میں ایڈ کیا جائے گا۔ اس توہین کے پیچھے ایک منظم تحریک ہے جس کے شکار ہر طبقہ اور ہر عمر کے افراد ہو رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ دینی طبقات کے لوگ بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں ، وہ نہ صرف اس تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں بلکہ ایسی چیزیں بنانا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ چند لوگ گروپ چلارہے ہیں یا سوشل میڈیا پیجز چلا رہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک سازش ہے ۔ 2023ء میں طیب نامی ایک شخص پکڑا گیا تھا تو اس نے اس بات کا برملا اظہار کیا تھا میں شیطان کا پیغمبر ہوں ۔ اس نے ایک کتاب بھی لکھی جس کے متعلق اُس کا دعویٰ ہے کہ اُس پر الہام کی گئی ہے ۔ اس کتاب میں جو مغلظات اس نے بکے ہیں ، انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ ان ظالموں نے قرآن اور اللہ کے پیغمبروں سمیت کسی بھی مذہب کو نہیں بخشا ۔
سوال:کیا اس تحریک کے پیش رو تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی جیسےلوگ ہیں جن کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہے یا اس کے کچھ اور مقاصدبھی ہیں ؟ اس تحریک کے پس پردہ اصل کردار کون ہیں ؟
رضاء الحق: اللہ کے دین کی مخالفت میں جو بھی تحریک اٹھتی ہے اس کا سب سے پہلا پیش رو تو خود شیطان ہوتاہے اور اس کے بعد اس کی ذریت اس تحریک میں شامل ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
{ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ(6)}(الناس) ’’خواہ وہ جنوں میں سے ہو یاانسانوں میں سے۔‘‘
ایک دور تھا جب ریڈیو ، ٹی وی نہیں تھا تب ہماری معاشرتی اقدار بہت مضبوط تھیں ، گھر اور خاندان کا نظام تھا ، شرم و حیا اور ادب و احترام تھا ۔ پھر ریڈیواور ٹی وی آگئے تو شروع میںنیوز کاسٹرز سر پر دوپٹہ لیے ہوتی تھیں اور اشتہارات میں بھی بے حیائی کا عنصر کم ہوتا تھا ۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں ، ٹولز بدلتے گئے اور عالمی سطح پر شیطانی ایجنڈا بھی آگے بڑھتا گیا اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بے حیائی ، فحاشی اور توہین مذہب کو ایک ساتھ لے کر چلنے والی تحریکیں پھیل رہی ہیں ۔
سوال: کیا ایسی تحریکوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پورنو گرافی میں ملوث ہیں ؟
رضاء الحق:بالکل اس سے آگے بڑھ کر بھی معاملہ ہو سکتاہے کیونکہ ڈارک ویب کے اوپر شیطانی تنظیموں کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ چند برس قبل برطانوی پارلیمنٹ میں یہ سکینڈل سامنے آیا تھا کہ اس کے کچھ ارکان کے لیپ ٹاپس سے چائلڈ پورنوگرافی کے شواہد ملے تھےجن کا تعلق ڈارک ویب سے تھا ۔ پھر اس معاملے کو دبا دیا گیا ۔ ممکن ہے اسی شیطانی ایجنڈے کا دائرہ کار اب عام سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس تک بڑھایا گیا ہو کیونکہ شیطانی ایجنڈا مسلسل آگے بڑھ رہا ہے ۔ آپ دیکھیں پہلے نکاح اور شادی کے بندھن سے لوگوں کو نکالا گیااور مادر پدرآزاد معاشرت کی بنیاد ڈالی گئی ، پھرمعاملہ اس سے بھی آگے بڑھا تو LGBTQتک پہنچا ، پھراس بدکاری کا دائرہ جانوروں تک بڑھتا گیا ۔ سائیکالوجی کے لحاظ سے بھی دیکھیں تو یہ شیطانی مرض بڑھتا چلا جاتاہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
((إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ))’’ اگر تم بے حیا ہو جاؤ تو پھر تم جو چاہے کر سکتے ہو۔ ‘‘
جب حیا ختم ہو جائے تو انسان گناہوں میں آگے بڑھتا چلا جاتاہے اور پورنو گرافک توہین مذہب اس کی ایک زندہ مثال ہے ۔
سوال:حالیہ فتنہ میں مبتلا400 لوگوں کو حکومتی اداروں نے گرفتار کیا ہے جبکہ ہزاروں لوگوں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کی اطلاعات ہیں کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ پچاس ہزارایسے گروپ چلائے جارہے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس فتنہ کا شکار کیسے ہوگئے ، کیا انٹرنیٹ کی مکمل آزادی کی وجہ سے یہ فتنہ پھیلا ؟
قیصر احمد راجہ: یہ کہا جارہا ہے کہ 50 ہزار گروپس ہیں، ہر گروپ میں اگر ہزار لوگ ہوں گے تو یہ لاکھوں میں تعداد بنتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی نے سینکڑوں جعلی اکاؤنٹس بنائے ہوں ۔ اس فتنہ میں مبتلا مختلف قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو جنسی تسکین کے حوالے سے مایوس تھے جب انہیں سوشل میڈیا پر یہ سہولت میسر ہوئی تو انہوں نے فیک آئی ڈیز بنالیں اور اس میں ملوث ہوگئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو بدکاری کے نئے راستے ڈھونڈنا چاہ رہے تھے ،تیسرے وہ لوگ ہیں جو لبرل یا دین بےزار ہیں ۔ جیسا کہ چند دن قبل عدالت کے ایک فیصلے میں ایک مکمل پیراگراف میں بتایا گیا ہے کہ لبرل تعلیم ہماری نوجوان نسل کو کہیں کا نہیں چھوڑ رہی لہٰذا اس کا کوئی حل نکالا جانا چاہیے ۔ تاہم مذکورہ فتنے میں وہ لوگ بھی مبتلا بتائے گئے ہیں جن کا تعلق دینی اداروں سے ہے اور وہ بھی جو بالکل اَن پڑھ ہیں ۔ ان سب میں مشترک مرض یہ پایا گیا ہے کہ پورنو گرافی کا نشہ ان پر حاوی ہوگیا اور وہ اس سے نکل نہیں پائے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے ۔
سوال: اس شیطانی فتنے میں مبتلا جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں ہر عمر، ہر جنس اور ہر طبقے کے لوگ ہیں ۔ ان کو پکڑنے کے لیے باقاعدہ کوئی قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے یا ماورائے قانون گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں ؟
عبدالوارث:ان کو FIA کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے اورFIA کا طریقۂ کار پولیس سے مختلف ہوتا ہے ۔ اس میں ملزم کےمتعلق پہلےباقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے ، پھر اس کی نگرانی کی جاتی ہے ۔ اگر مجرم پایاجائے تو پھر اس سے رابطہ کیا جاتاہے اور باقاعدہ قانونی طریقۂ کار کے تحت گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتاہے ۔ عدالت نے اب تک 36 لوگوں کو سزائیں سنائی ہیں ۔ اس پر ہمارا سیکولر اور لبرل طبقہ اور کچھ بیرونی فنڈنگ والی این جی اوز جو واویلا کر رہی ہیں۔ ان کا مقصد سوائے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اعتراض کرنے والے کچھ لوگوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ ریاست کے چند بڑے اداروں میں اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں ۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے اداروں کو ایسے لوگ چلا رہے ہیں ۔
سوال: اعتراض کرنے والوں نے ایک وکیل راؤ عبدالرحیم صاحب کا نام بھی لیا ہے کہ وہ FIA سے مل گئے ہیں اور لوگوں سے پیسے وصول کر رہے ہیں ۔ اس الزام میں کتنی سچائی ہے ؟
قیصر احمد راجہ: میں نے ایمان مزاری صاحبہ سے رابطہ کرکے مطالبہ کیا کہ ایڈووکیٹ راؤ عبدالرحیم صاحب پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کے ثبوت مجھے فراہم کیے جائیں لیکن انہوں نےکوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ ان مجرموں کو بچانے کے لیے ’’بلاس فیمی تحفظ گروپ‘‘ بھی کام کررہا ہے جس میں دین بےزار سیکولر ، لبرل اور قادیانی بھی شامل ہیں اور وہ اس شیطانی فتنہ کے خلاف کام کرنے والوں(جن میں وکلاء ، FIA اہلکار اورقرآن بورڈ سمیت مدعیان بھی شامل ہیں ) پر’’ بلاس فیمی بزنس گینگ ‘‘ہونے کا بہتان لگا رہے ہیں کہ یہ پیسے کمانے کے لیے لوگوں کو پکڑتے ہیں اور پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جب ملزمان کے وکیل سے پوچھا گیا کہ آپ کوئی ایک کیس ایسا بتا سکتے ہیں کہ جس میں پیسے لے کر چھوڑا گیا ہو یا صلح صفائی ہو گئی ہو ۔ وکیل نے بتایا کہ ایسا ایک کیس بھی نہیں ہے ۔
عبدالوارث: ایڈووکیٹ عثمان صاحب بھی اس کیس کو ڈیل کر رہے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کے والدین سے پوچھا کہ آپ سے کسی نے پیسے مانگے ہوں تو بتائیں لیکن وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ اسی طرح عدالت میں بھی ملزمان سے یہ پوچھا گیا لیکن وہاں بھی انہوں نے کوئی ثبوت نہیں دیا ۔ 65 کیس تو صرف قرآن بورڈ نے درج کروائے ہیں۔ اسی طرح پیمرا سرکاری ادارہ ہے اس نے بھی توہین مذہب کے ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے ، پھر PTA نے بھی کہا ہے کہ ہم نے کچھ ویب سائٹس بلاک کی ہیں جن پر توہین مذہب کے واقعات ہو رہے تھے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے کیسز کے حوالے سے شکایات درج کروائی ہیں ۔کیا یہ سب ادارے راؤ عبدالرحیم کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں ؟
رضاء الحق:کچھ عرصہ سے ہمارے تحقیقاتی اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ سے آڈیو ویڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے اداروں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے پیچھے کون ہے ؟دوسری بات یہ ہے کہ ایڈووکیٹ راؤ عبدالرحیم نے مبارک ثانی کیس قادیانیوں کے خلاف لڑا تھا لہٰذا اس لیے بھی ان کو سزا دی جارہی ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے تحقیقاتی اداروں کے پاس مجرموں تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ وہ مجرموں کے گروپ میں بھیس بدل کر شامل ہو جاتے ہیں اور ساری معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں۔
سوال:کیا ابھی تک کوئی ملزم بھی اس کیس میں بے گناہ قرار نہیں پایا ؟
قیصر احمد راجہ:بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی پر شک ہوا ، تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کا ڈیٹا چوری کرکے کسی نے استعمال کیا ہے یا آئی ڈی ہیک ہوئی ہے تو سچائی سامنے آنے پر اسے چھوڑ دیا جاتا ہےا ور اصل مجرم کو پکڑا جاتاہے ۔ راولپنڈی میں ایک بچی کے نمبر پر کسی نے واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا تھا۔ جب اسے پکڑا گیا تو سچائی سامنے آگئی اور بچی کو چھوڑ دیا گیا ۔ انوسٹی گیشن میں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں لیکن جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے وہ پکے ثبوتوں کے بغیر نہیں ہوتی ۔ مجھے کوئی ایک کیس بھی ایسا نہیں ملا ۔
سوال: ایمان نامی خاتون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کے موبائل سے ملزمان کے موبائل پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز شیئر ہوئی ہیں ۔ملزم پوچھتا ہے کہ آپ نے مجھے کیا بھیج دیا ہے ۔ خاتون کہتی ہے کہ میں نے کچھ نہیں بھیجا ۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے واپس بھیجو ۔ جب وہ واپس بھیجتا ہے تو وہ پکڑا جاتاہے ۔ اس میں کتنی سچائی ہے ؟
عبدالوارث:انہوں نے کہانی کے طور پر ایک واقعہ گھڑ لیا تھا لیکن عدالتوں میں کہانیاں نہیں چلتیں ، وہاں دلائل اور ثبوت چلتے ہیں ۔ 400 لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کو ون ٹائم شیئرنگ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہو ۔ کم ازکم جو 6 ماہ تک مسلسل ملوث رہا ہو اس کو گرفتار کیا جاتاہے ۔ ملزموں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سالہا سال سے توہین مذہب کے مرتکب ہو رہے تھے ۔
سوال: مجرمین کے خلاف اس قدر پختہ ثبوتوں کے باوجود جو لوگ ان کے دفاع میں آگے آرہے ہیں وہ کس بنیاد پر آرہے ہیں ؟
رضاء الحق: بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک دین بےزار ، سیکولر اور لبرل طبقہ ایسا ہے کہ جب بھی کوئی اس طرح کا کیس آتاہے تو وہ شور مچاتاہے ۔ جیسا کہ مبارک ثانی کیس ، آسیہ مسیح کیس یا بابا شکورا قادیانی کیس کے دوران یہ طبقہ ان کے حق میں بولتا رہا ۔ یہ طبقہ مغرب کی اس سوچ سے متاثر ہوتا ہے جو اسلام دشمنی پر مبنی ہوتاہے ۔ جیسا کہ انڈین کورونیکلز کے معاملے میں پوری دنیا کے سامنے یہ سچائی آگئی کہ کس طرح جعلی آئی ڈیز اور ویب سائٹس بنا کربھارت پاکستان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا تھا ۔ ان کی ڈور جن ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کا تو مشن یہی ہے کہ مسلمانوں کو قرآن سے دور کر دیا جائے ، اسلام کی اہمیت مسلمانوں کےد لوں سے نکال دی جائے ۔ نبی اکرمﷺ کی محبت اہل ایمان کے دل سے نکالی جائے ،اہل بیت اور صحابہ کرام؇ کی کردار کشی کی جائے ۔ پھر وہ فرقہ واریت کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ۔
سوال: ایمان مزاری جیسے لوگ جوتوہین مذہب کے مجرموں کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں ان کے پیچھے کون لوگ ہیں جنہوں نے ان کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں ؟
قیصر احمد راجہ:اس میں صرف ایمان مزاری نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سے لوگ شامل ہیں ۔ عثمان بھٹی ہیں ، عثمان کریم الدین ہیں جنہوں نے مبارک ثانی کے دفاع میں کیس لڑا اور ابھی بھی وہ توہین مذہب کے 50 ملزموں کے دفاع میں کیس لڑ رہے ہیں ۔ خیر وہ تو وکیل ہیں اور یہ ان کا پیشہ ہے ۔ مگرتوہین مذہب کے مجرموں کو تحفظ دینے میں ہمارے دو ادارے بھی ملوث ہیں ۔ (1) سپیشل برانچ ، جس نے کسی بیرونی این جی او کی افواہ سازی کو بلا تحقیق اور ثبوت کے پبلک کیا ، (2) ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان جس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیا میں خبر پھیلائی کہ گرفتار شدہ لوگ بے گناہ ہیں ۔ اس پر 24 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے ہیومن رائٹس کمیشن کو نوٹس بھی بھیجا ہے کہ آپ نے قانون کو کیوں توڑا ہے ؟کئی مجرمین کے والدین سے میں ملا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے توبہ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ان سے جرم ہوا ہے ۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ مذہبی طبقہ کے دباؤ میں سب کچھ ہورہا ہے۔ میں نے ان کے وکیل عثمان بھٹی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں کوئی مذہبی طبقہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی نعرے بازی ہوتی ہے ۔ کئی ملزمان کے وکیل ہی عدالت میں پیش نہیں ہوتے ۔ حالانکہ اگر آپ سچے ہیں تو عدالت میں آکر ثبوت پیش کریں ۔
سوال: توہین مذہب کے ان ملزموں کے خلاف عدالتوں میں تمام تر قانونی تقاضے پورے ہورہے ہیں ۔ اس کے باوجود کمیشن بنانے کی باتیں کیوں ہورہی ہیں ؟
عبدالوارث: ایک بہانہ بنایا جارہا ہے کہ عدالتوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے لہٰذا کمیشن بنایا جائے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ریٹائرڈ لوگوں کو ججوں کے سروں پر بٹھایاجائے تاکہ اپنی مرضی کا فیصلہ لیا جاسکے ۔ اس کے حوالے سے بہت امکانات بھی ہیں کہ یہ کمیشن بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کے زیر سماعت کیسز کے حوالے سے جب کمیشن بنانے کی بات کی جاتی ہے تو صاف انکار کر دیا جاتاہے لیکن جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی توہین کرنے والوں کے خلاف کیس زیر سماعت ہو تو فوراً کمیشن بنانا یاد آجاتاہے ؟اس پر بعض بڑی دینی جماعتوں کے سربراہان نے کہا ہے کہ اگر آپ اس لیے کمیشن بنا رہے ہیں کہ سزا یافتہ لوگوں کے کیسز کی دوبارہ سماعت شروع کی جائے تو یاد رکھئے کہ عوام برداشت کی حد کھو دے گی ۔
سوال: کمیشن سے کوئی خیر برآمد ہونے کی توقع ہے یا یہ کسی انٹرنیشنل پریشر کی وجہ سے بنایا جارہا ہے ؟
قیصر احمد راجہ: کسی ایک ملزم کی طرف سے بھی درخواست نہیں گئی کہ کمیشن بنایاجائے ۔ کمیشن کا مطالبہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو ملزم نہیں ہیں ۔ لہٰذا قانون کی رو سے ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ کمیشن جائزہ لے گا کہFIA اور دیگر اداروں نے قانون کا غلط استعمال تو نہیں کیا ۔ حالانکہ یہ جائزہ عدالتی ٹریبیونل بھی لے سکتاہے ، JIT لے سکتی ہے ، پارلیمنٹری کمیٹی لے سکتی ہے لیکن اس صورت میں ملزمان کو ضمانت نہیں مل سکتی اور نہ ہی ملک سے فرار ہونے کا موقع مل سکتا ہے ۔ جبکہ کمیشن کے ذریعے یہ دونوں راستے کھل سکتے ہیں ۔ احمد ستی کیس میں بھی اسی طرح سپریم کورٹ سےمشروط ضمانت ملی تھی کہ تم نے ہر سماعت میں حاضر ہونا ہے لیکن وہ ملک سے فرار ہوگیا ۔ لہٰذا کمیشن کی آڑ میں یہ ٹیکنیکل گیم کھیلنا چاہتے ہیں ۔ کمیشن بنتے ہی ایک جواز پیدا ہو جائے گا کہ چونکہ کمیشن ریاست کی طرف سے بنایا جارہا ہے اس لیے معاملہ مشکوک ہے اوراس شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ضمانت کا مطالبہ کریں گے اور ضمانت ہوگئی تو ملک سے فرار کے راستے خود کھل جائیں گے ۔
سوال: توہین رسالت کے ملزمان کو ضمانتیں کیوں مل جاتی ہیں اور اس کے بعد وہ ملک سے کیسے فرار ہو جاتے ہیں ؟ کیا کچھ اندرونی قوتیں اس میں ملوث ہوتی ہیں ؟
عبدالوارث: بعض لوگ توہین مذہب کرتے ہی اس لیے ہیں تاکہ ان کو مغرب کی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں اور وہ یورپ میں سیٹل ہو سکیں ۔
رضاء الحق: ایک ٹاک شو کے دوران صاحبزادہ حامد نے بھی ان کیمرہ پارلیمنٹری سیشن کی بات کی ہےکہ اس میں سارے ثبوت لا کر سامنے رکھے جائیں ۔
سوال: اس حوالے سے کس کس نےآواز بلند کی ہے ؟
عبدالوارث: صاحبزادہ حامد نے مین سٹریم میڈیا پر بیٹھ کر بتایا کہ میں نے اسمبلی میں چار پانچ ایجنڈے پیش کیے تھے لیکن مجھے بتائے بغیر توہین مذہب کے مسئلہ کو ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس اسمبلی کو ان معاملات پر آواز اٹھانی چاہیے تھی وہاں پر ہی مجرموں کو تحفظ مل رہا ہے ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر دینی جماعتوں اور علماء کو جس قدر آواز اُٹھانی چاہیے تھی وہ نہیں اُٹھائی گئی ۔
سوال: اگر کمیشن بنا کر توہین مذہب کے ملزمان کو ملک سے باہر بھیجنا شروع کر دیاگیا تو پھر حالات کیا ہوں گے ، ہم اپنے بچوں کو اس فتنہ سے کیسے بچائیں گے ؟
قیصر احمد راجہ:یہ ایک خطرناک مثال بن جائے گی۔ اگر قانون خود مجرموں کو راستہ فراہم کرے گا تو جرائم کبھی رُک نہیں پائیں گے۔ مجھے اُمید ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ارباب اقتدار اس معاملے میں سنگین غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے ۔
عبدالوارث:اگر کمیشن بنا کر قانونی راستے کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر شاید آئندہ عوام خود ہی فیصلے کریں گےاور بدامنی پھیلے گی۔ لہٰذا ہماری ریاست ، حکومت اور اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ قانون کو عوام کے ہاتھ میں نہ جانے دیں ۔
آصف حمید: جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ کسی نے فحش ویڈیو یا تصویر بنا کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور ملزم کے پاس سےتصویر یا ویڈیو برآمد بھی ہوجاتی ہے تو پھر عوام کے جذبات قابو میں نہیں رہیں گے اور اس عوامی ردعمل کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جو قانون کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور انصاف قائم نہیں ہونے دیتے ۔
عبدالوارث: اگر توہین رسالت کے ملزمان سپریم کورٹ میں بھی مجرم قرار پاتے ہیں تو پھر ریاست کو چاہیے کہ ان کو قرارواقعی سزا دے تاکہ آئندہ کے لیے لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔
رضاء الحق: خدشہ یہ ہے کہ کمیشن بن جائے گا کیونکہ وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن آچکا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر قانون پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جائے گا اور گلی محلوں میں عوام خود فیصلے کریں گے ۔ جہاں تک والدین کا تعلق ہے توان کا اولاد پر کنٹرول اس وقت تک مضبوط تھا جب تک جدید ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی ۔ اب ان کے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہو چکا ہے ۔ لہٰذا جب تک ریاستی سطح پر قانون سازی اور قوانین کے نفاذ کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جائے گا، ایسے فتنوں کا سدباب ممکن نہیں ہوگا ۔ دوسرا یہ کہ والدین بالغ بچوں کے ساتھ دوستی والا رویہ اپنا ئیں ، ان کو وقت دیں ۔ حضرت علی؄ کا قول ہے کہ جب بچہ بالغ ہوجائے تواس کے ساتھ دوست کی طرح رہو ۔اہم بات یہ ہے کہ نکاح کو آسان بنایا جائے تاکہ حلال طریقے سے فطری خواہشات کو پورا کیا جاسکے ۔