(ماہِ صیام) ماہِ رمضان المبارک کے فضائل - مولانا محمد طارق نعمان

10 /

ماہِ رمضان المبارک کے فضائل

مولانا محمد طارق نعمان

رمضان المبارک بہت ہی بابرکت مہینہ ہے۔ اس کو  مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پورے مہینہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے ہیں۔
اس مہینہ کی اہمیت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ     نبی اکرم ﷺ رجب سے ہی رمضان المبارک میں پہنچنے کی دعا شروع کردیتے تھے۔ آپ ﷺ دعا کرتے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینہ تک پہنچا ۔‘‘
     (شعب الایمان: 3534)
رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’’میری اُمّت رمضان کے حوالے سے پانچ ایسی چیزوں سے نوازی گئی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو وہ چیزیں نہیں دی گئیں۔ پہلی چیز: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے، اللہ تعالیٰ اس امت کی طرف دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جن کی طرف دیکھ لیتے ہیں، ان کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے۔ دوسری چیز: افطار کے وقت روزہ داروں کے منہ کی خوشبو، اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔ تیسری چیز: فرشتے ان کے لیے دن ورات استغفار کرتے ہیں۔ چوتھی چیز: اللہ اپنی جنت کو حکم کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے بندوں کے لیے تزئین کرلو اور تیار ہوجاؤ۔ پانچویں چیز: جب (رمضان) کی آخری رات ہوتی ہے، تو(اللہ تعالیٰ) ان سب کو معاف فرمادیتے ہیں۔(شعب الایمان)
قرآن کریم اسی ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوا۔ فرمان خداوندی ہے: ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (البقرہ: 185)
قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔‘‘ (سورۃ القدر:1)
قرآن کریم کا ماہ رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمان اول پربیک وقت شب ِقدر میں اتارا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق تئیس سالوں میں نبی اکرم ﷺ تک حضرت جبریلd کے معرفت بھیجا۔
مشہور مفسر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بصریؒ لکھتے ہیں:ابن عباسؓ وغیرہ (j) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن شریف لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر یک بارگی (شب قدر میں) نازل فرمایا۔ پھر واقعات کے مطابق تفصیل وار تئیس سالوں میں رسول اللہﷺ پر (تھوڑا تھوڑا) نازل ہوا۔ (تفسیر ابن کثیر 8/441)
قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہنا چاہیے۔ رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔
قارئین کرام! ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبروتفکر اور اس کی تلاوت وقراءت میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ہمیں رمضان جیسے مبارک مہینے میں اِدھر اُدھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا، وہیں اس عمل سے آخرت بھی سدھرے گی اور مِن جانب اللہ بڑا اجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلاف کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔نبی اکرم ﷺ کا بھی یہ معمول تھا کہ آپؐرمضان المبارک میں حضرت جبریلd کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس iرمضان میں آپ ﷺ  کی سخاوت وغم خواری اور حضرت جبرئیلdکے ساتھ  قرآن کریم کے دورہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:     ’’نبی اکرم ﷺ خیر کے معاملے میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی تھی ۔جبرئیلd آپ ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے، تا آں کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ ﷺ جبرئیلdسے قرآن کا دورہ کرتے تھے۔ جب جبرئیلd آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔
قرآن مجید میں تدبر وتفکر
حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ؒ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کا رمضان میں قرآن کریم میں تدبروتفکر کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’علم کی گہرائی اور دقت نظر کا کچھ اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نے اپنا یہ حال خود ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ میں رمضان مبارک میں قرآن مجید شروع کرتا ہوں اور تدبر وتفکر کے ساتھ اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر جو کچھ باقی ہوتا ہے اس دن ختم کرکے دورہ پورا کرلیتا ہوں۔ یہ عاجز (حضرت نعمانی) عرض کرتا ہے کہ رمضان المبارک میں کبھی حضرت کے قریب رہنے کا اتفاق تو نہیں ہوا لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ انزل فیہ القرآن والے اس مبارک مہینہ میں زیادہ وقت قرآن مجید ہی کی تلاوت اور   تدبر وتفکر پر صرف فرماتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن کریم ختم نہیں کرپاتے تھے۔‘‘ (عبد الرحمن کوندو، الانور، ص: 307)
قارئین کرام! ہمارے اسلاف واکابر رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ کس طرح چمٹے رہتے تھے۔ دراصل وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ تلاوتِ قرآن کریم کی توفیق کو اپنے لیے خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں سے سیکھ کر، قرآن کریم تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔خصوصاً رمضان المبارک کے مہینے میں، ہمیں پوری دلچسپی اور لگن کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول  رہنا چاہیے۔ 
تلاوت قرآن میں مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو وہ چیزیں بھی عطا فرمائیں گے جو مانگنے سے رہ گئیں ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
(ترجمہ): ’’جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کردے میں اس شخص کو اس سے بہتر دیتا ہوں جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔‘‘ (ترمذی)
رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علما ء وصلحا کا قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور قراءت وتلاوت نذر قارئین کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کی دلچسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور سعی کرنی چاہیے۔  ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جب ہم خود کو اس پاک ذات کے کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے تو وہ پاک ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرما لے گی اور ہماری آخرت سنور جائے گی۔
ایمان بسا دل میں ہے پہچان میں آجا
اے پیارے مرے حلقہ قرآن میں آجا
مل جائے گی پھر عظمت رفتہ تجھے ناداں
تو بابِ عمل کھول کے میدان میں آجا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے قیمتی اوقات کے قدر کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)